حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اہلیہ کو بنت الاکرمین (اپنی اہلیہ اور انکے خاندان کے اکرام کی وجہ سے معزز لوگوں کی بیٹی) کہہ کر بلایا کرتے تھے۔
ایک رات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے اطراف میں رعایا کے حالات کی خبر گیری کے لئے چکر لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ دیکھا جو اس سے پہلے نہیں دیکھا تها، چنانچہ آپ اس کی طرف بڑھے کہ خیریت دریافت کریں، اچانک خیمے سے کراہنے کی آواز سنی تو آپ کو فکر لاحق ہوئی۔ آپ نے خیمے والوں کو پکارا تو ایک شخص نکلا،
آپ نے پوچھا کون ہو؟
کہنے لگا دیہاتی ہوں، ضرورتمند ہوں، ہم نے سنا ہے کہ عمر ضرورتمندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں تو اسی لئے ہم بھی آ گئے.
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا یہ تکلیف دہ آواز کیسی ہے؟
دیہاتی نے کہا کہ یہ میری بیوی ہے دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: کیا تمہارے ہاں کوئی ہے جو اس کا خیال رکھے اور بچے کی پیدائش میں مددگار ہو؟
دیہاتی نے جواب دیا: کوئی نہیں ہے، بس میں اور میری بیوی ھم دو ہی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ: کیا تمہارے پاس اس کو کھلانے کے لئے کچھ خرچ وغیرہ ہے؟
دیہاتی بولا: "نہیں"
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عن نے فرمایا ٹھہرو میں تمہارے لئے کچھ کھانے پینے اور ولادت کے لئے کسی کو لیکر آؤں،
یہ کہہ کر اپنے گھر گئے اور اپنی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب کو پکارا
"یا ابنة الاکرمین!!!"
الله نے تمہارے لئے نیکی کا موقع عنایت فرمایا ہے۔
اہلیہ نے پوچھا وہ کیا؟
فرمایا مدینے کے نواح میں ایک بیچاری نادار عورت دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے۔
اہلیہ نے کہا: آپ کی چاہت ہو تو میں اس کی مدد کیلئے چلوں؟
آپ نے فرمایا اٹھ اے عزت والوں کی بیٹی! اور ولادت کے وقت پیش آنے والی ضروری چیزیں تیار کر! اور خود کھانے کے اشیاء (گیہوں گھی وغیرہ) اپنے سر پے لادا اور دونوں میاں بیوی چل پڑے۔۔۔
خیمے پر پہنچ کر حضرت ام کلثوم بچے کی پیدائش میں مدد کرنے لگیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کے ساتھ خیمے سے باہر بیٹھ کر کھانا تیار کرنے لگے، خود ہی آگ پھونک رہے تھے یہاں تک کہ دهویں کے آثار آپ کی داڑھی مبارک پر نظر آنے لگے
اتنے میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے خیمے سے آواز دی:
"اے امیر المومنین! اس آدمی سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے اسے بیٹا عنایت فرمایا ہے اور اس کی بیوی بھی خیریت سے ہے."
جب اس شخص نے (امیر المومنین کا لفظ) سنا تو حیرت کے مارے پیچھے ہٹنے لگا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ عمر بن الخطاب ہیں
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہنس پڑے اور اس سے کہا:
قریب آجاؤ۔۔۔! قریب آجاؤ۔۔۔! ہاں میں ہی خطاب کا بیٹا عمر ہوں اور جس نے تمہاری بیوی کی مدد کی وہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی بیٹی ام کلثوم ہیں.
وہ شخص روتا ہوا سجدے میں گر پڑا کہ میری بیوی کے ہاں ولادت کی تکلیف میں اہلِ بیت اور خاندانِ نبوت نے مدد کی؟
اور خود امیر المومنین میرے اور میری بیوی کے لئے کھانا پکا رہے ہیں؟
حضرت عمر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی اھلیہ کیلئے کھانا دیتے ہوئے فرمایا: یہ لو! اور جب تک تم یہاں ٹھہرے ہوئے ہو میں مزید بھی لاتا رہوں گا.
یہ ھے وہ طریقہ جو صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے لیا تھا ، حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کا بلند مرتبہ صرف نماز، روزے اور تہجد گذاری کے باعث نہ تھا ، اور نہ ھی صرف فتوحات ان کی رفعت کی وجہ تھی ، بلکہ ان کا متواضع اور عاجزی سے بھرا ھوا دل تھا جو ھر وقت اللہ کی طرف لو لگائے ھوئے تھا ، انھوں نے زمین میں انصاف اور حق کا بول بالا کیا ، انہوں نے اپنا محاسبہ کیا قبل اس کے کہ قیامت کے دن اللہ محاسبہ کرتا۔۔۔
No comments:
Post a Comment